آج کا دور نظریاتی اور ڈپلومٹک برتری کا دور ہے ، نئی نسل کسی بھی فکر کو قبول کرنے سے پہلے تحقیق کرتی ہے ـ جو نظریات ،عقل ونقل سے قریب ہوتے ہیں اس کے حاملین خود بخود پیدا ہوجاتے ہیں آج کے دور میں ہر وہ نظریہ فروغ پارہا ہے جس میں کسی حد تک عقل کو اپیل کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ ایسے میں ہم حاملین کتاب و سنت اور دین فطرت کے عامل اور داعی کو چاہیے کہ ہم اپنے دینی و فقہی نظریات کو عقل و نقل کے مطابق پیش کریں۔
اولا: ہم اپنے دینی و فکری نظریات کو کتاب و سنت سے مدلل کریں۔
دوم: دل و دماغ کو قائل کرلینے والے اسلوب میں پیش کریں۔
یوں ہی فقہی مذاہب کے اختلافات کا بھی گہرا مطالعہ کریں اور امت مسلمہ کو در پیش جدید مسائل کے حل کے وقت کتاب و سنت میں پہلے غور کریں اور پھر اقوال مجتہدین امت پر نظر ڈالیں جوفقہی قول، عقل و نقل سے زیادہ قریب ہو اس کی روشنی میں مسائل کا حل پیش کیا جائے ـ تاکہ امت کے مسائل کم سے کم ہوں اور اغیار کو دین فطرت پر اعتراض کا موقع ہاتھ نہ آئے ۔ یہ سب اسی وقت ممکن ہوگا جب ہم قرآن و سنت اور ائمہ مذاہب کے اقوال و اصول کا گہرائی سے خود مطالعہ کریں گے اور اپنی نئی نسل کو اصل مصادر سے علوم و فنون کے حصول کی ترغیب دیں گے۔
خضرِ راہ ، جولائی ۲۰۱۶ء
Leave your comment