میں عقیدہ رکھتا ہوں کہ آنحضرت ﷺ کی خلافت راشدہ حقّہ پورے تیس برس رہی جیسا حدیث صحیح میں ہے: الخِلَافَةُ بَعْدِی ثَلَاثُونَ سَنَةً ثُمَّ یَکُوْنُ مَلَکًا([1]) یعنی خلافت میرے بعد تیس برس ہے پھر پادشاہی ہوگی۔ پس وہ خلافت حضرت علی کرم اللہ وجہہ پر ختم ہوئی، جب آپ کا وصال ہوا، پانچ مہینے، تیس برس میں باقی تھے، حضرت امام حسن نے وہ زمانہ پورا کیا۔ پھر معاویہ بن ابی سفیان صحابی رسول اللہ صلی علیہ وسلم امیر ہوئے اور حضرت امام حسن نے امارت اور حکومت کو ترک فرما کر ان پر چھوڑ دیا اور بیعت اطاعت ان کے ہاتھ پر کی اور وہ حاکم اسلام اور امیر ملک اور صحابی عدول تھے۔([2])
وہ، حضرت عثمان کے خون کا قصاص چاہتے تھے اور ان کا گمان یہ تھا کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے لشکر میں ان کے قاتل موجود ہیں اور وہ بدلہ نہیں لیتے۔ حضرت علی فرماتے تھے کہ خون کا مقدمہ نازک ہوتا ہے۔ تم قاتلوں کو ثابت کرو، میں حکم دوں اور حضرت عثمان بلوائے عام میں شہید ہوئے تھے، قاتلوں کا ثبوت بہت مشکل تھا۔
معاویہ نے حضرت علی کے ارشاد کو باور نہ کیا اور مقام صفین میں چند لڑائیاں حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے لڑے ، اور ان کو ہرگز یہ منصب حاصل نہ تھا کہ رسول ﷺ کے بھائی اور داماد اور محب اور محبوب اور خلیفہ برحق اور امام وقت سے لڑتے۔ پھر حضرت امام حسن نے انہیں فسادات قدیمہ پر نظر کرکے معاویہ سے صلح کرلی اور مسلمانوں کی جانیں بچائیں اور چوں کہ اصحاب کا ایک گروہ ان کی طرف بھی تھا، جدال اور قتال سے باز رہے، اور معاویہ کو کسی طرح لائق نہ تھا کہ رسول اللہ ﷺ کے پارہ جگر اور نورالعین اور ریحان اور یادگار کا مجبور ہونا اور معزول ہوکر گھر بیٹھنا اپنے سامنے اچھا سمجھتے اور انہیں باتوں کے متعلق اور چند باتیں امیرمعاویہ کی روایات معتبرئہ اہل سنت سے ثابت ہیں ۔
لا محالہ اُن کی رائے نے خطا کی، جیسا اہل سنت کا مذہب ہے اور اسی سے امام نسائی (جامع صحیح نسائی) کا قول ان کے باب میں ہے کہ معاویہ کی فضیلت یہی بہت ہے کہ نجات پا جائیں ([3])۔
بہتیرے علما اس پر ہیں کہ انہوں نے یہ باتیں جان کر نہیں کیں اور اس خطا کو خطا نہیں جانا اور علی الغفلت ان سے واقع ہوئی، اس کو خطائے اجتہادی کہتے ہیں اور اس خطا میں خاطی پر گناہ نہیں اور با وجود خطا، ثواب سے محروم نہ رکھا جائے گا اور ایسے خاطی کو مخطی کہتے ہیں ۔
بعضے اہل سنت ادھر گئے ہیں کہ وہ خاطی تھے اور جان بوجھ کر یہ سب باتیں کیں۔ اس خطا میں ثواب نہیں اور اندیشۂ مواخذہ بھی ہے اور امید عفو بھی ہے۔ حضرت جامی رحمۃ اللہ علیہ کا مذہب یہی ہے۔ وہ فرماتے ہیں :
حق در آں جا بدست حیدر بود
جنگ او با خطائے منکر بود
[اس موقع پر حق مولی علی کی جانب تھا اور ان سے جنگ خطاے منکر تھی۔]
میرا دل بھی اس بات میں اسی طرف ہے، کسی طرح ادھر نہیں آتا کہ وہ یہ سب کچھ کرتے رہے اور کچھ نہ سمجھے۔ اِلاَّ اس کے ساتھ ہی دل سے یقین رکھتا ہوں کہ سب معاف ہوجائے گا اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ درگزر فرمائیں گے۔ خیال کرنے کا مقام ہے کہ آنحضرت ﷺ کو ایک ہزار تین سو اٹھارہ [۱۳۱۸] برس گزر چکے ہیں اور قیامت تک والله اعلم کتنا زمانہ گزرے گا اور ہم لوگ ہزاروں گناہ صغیرہ اور کبیرہ کرتے ہیں اور امیدوار شفاعت ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے خوش خبری دی ہے کہ جس نے لَا اِلٰهَ اِلَّا الله مُحمَّدٌرَّسُوْلُ الله کہا ہے، جنتی ہوگا۔ اگرچہ زنا کیا ہو، اگرچہ چوری کی ہو، اگرچہ زنا کیا ہو، اگرچہ چوری کی ہو۔([4])پھر معاویہ رضی اللہ عنہ، کیا ہم لوگوں سے بھی کم ہیں اور کچھ حق نہیں رکھتے؟ پس ان کے باب میں اور جو اصحاب ان کی طرف تھے، ان سب کے حق میں چپ رہنا چاہیے، چار وجہوں سے:
ایک تو آنحضرت ﷺ نے حضرت امام حسن کی تعریف میں فرمایا ہے کہ میرے اس بیٹے کی وجہ سے مسلمانوں کے دو بڑے گروہ میں صلح ہوگی۔([5])اس حدیث سے دونوں گروہ کا مسلمان ہونا ثابت ہے۔
دوسری: حضرت علی سے پوچھا گیا کہ یہ لوگ یعنی معاویہ وغیرہ جو آپ سے لڑتے ہیں ان کا کیا حال ہے؟ آپ نے فرمایا: اِخْوَانُنَا فبَغَوا عَلینَا۔([6]) (ہمارے بھائی ہیں ، مگر ہم سے سرکشی کی ہے۔) اس سے بھی وہی ثابت ہے۔
تیسری: امام حسن نے ان کے ہاتھ پر بیعت کی، وہ اگر ان کو صحابی جلیل اور عدول نہ سمجھتے تو ہرگز بیعت نہ کرتے۔ جس طرح حضرت امام حسین علیہ السلام نے یزید ملعون کو اس قابل نہ جانا، سب طرح کی بربادی قبول فرمائی اور تمام اہل بیت کا قتل ہوجانا منظور فرمایا اور بیعت نہ کی۔
چوتھی: الخَبَرُیَحْتَمِلُ الصِّدْقَ وَالکِذْبَ۔ (خبر میں جھوٹ اور سچ دونوں کا گمان ہوتا ہے) اور زمانہ حال کی خبر کا صحیح معلوم ہونا دشوار ہے۔ بارہ تیرہ سو برس کی باتیں والله اعلم کہاں تک صحیح ہیں کہاں تک غلط۔ اور جب امیرمعاویہ کا اور ان کے ساتھ والو ں کا اسلام اور شرف صحابیت زائل نہیں ہوا اور رسول ﷺ کے فرمان سے اور حضرت جناب امیر کے ارشاد سے اورحضرت امام حسن کے فعل سے یہ بات ثابت ہو گئی، تب واجب ہو گیا کہ وہ حدیثیں جو کل اصحاب کے باب میں مطلقًا آئی ہیں ، ان پر عمل کیا جائے اور یہ لوگ ان سے الگ نہ سمجھے جائیں ۔
وہ [احادیث] یہ ہیں :
۱- أَصْحَابِی کَالنُّجُومِ بِأَیّهِمْ اِقتَدیتُمْ اِهْتَدَیتُم۔([7]) (میرے اصحاب ایسے ہیں جیسے تارے، تم لوگ جس کی پیروی کرو گے راہ پاؤ گے۔ )
۲- اللهَ اللهَ فِى أَصْحَابِى، لاَ تَتَّخِذُوهُمْ غَرَضًا مِن بَعْدِى، فَمَنْ أَحَبَّهُمْ فَبِحُبِّى أَحَبَّهُمْ وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ فَبِبُغْضِى أَبْغَضَهُمْ وَمَنْ آذَاهُمْ فَقَدْ آذَانِى وَمَنْ آذَانِى فَقَدْ آذَى اللهَ وَمَنْ آذَى اللهَ فَيُوشِکُ أَنْ يَأْخُذَهُ ۔([8])
میں تم کو یاد دلاتا ہوں کہ اللہ سے ڈرو، میرے اصحاب کے باب میں۔ اُن کو میرے بعد ہدف نہ بناؤ، پھر جس نے ان سے محبت کی میری محبت سے کی اور جس نے ان سے بغض کیا میرے بغض سے کیا اور جس نے ان کو آزار دیا مجھ کو دیا اور جس نے مجھ کو آزار دیا، اللہ کو دیا اور جس نے اللہ کو آزار دیا، وہ جلدی کرتا ہے اس میں کہ اللہ مواخذہ کرے اس سے۔
۳- مَنْ سَبَّ اَصْحَابِی فَسَبَّنیٍ وَمَنْ سَبَّنی فَسَبَّ الله وَمَن سبَّ اللهَ فَقَدْ کَفَرَ([9])
(جس نے میرے اصحاب کو گالی دی مجھ کو گالی دی اور جس نے مجھ کو گالی دی اللہ کو دی اور جس نے اللہ کو گالی دی پھر ہر آینہ کافر ہوا وہ۔) اور عَلٰی هٰذَا الْقَیَاس، بہت حدیثیں آئی ہیں ۔
بعض نے کہا ہے کہ معاویہ کاتب وحی بھی رہے ہیں اور ان کی بہن ام حبیبہ رضی اللہ عنہا، ازواج مطہرات میں ہیں اور آنحضرت ﷺ نے ان کو دعا بھی دی ہے: اَللّٰهُمَّ اجْعَلْه هَادِیاً وَّ مَهدِیاً۔([10]) (خداوندا! اس کو راہ دکھلانے والا اور راہ پایا ہوا کر دے۔ )
خلاصہ یہ کہ اگر کوئی شخص معاویہ رضی اللہ عنہ کو خاطی کہے تو یہ کہنا کہاں سے کمی کرتا ہے؟ اس سے آگے بڑھنا اور دل کو ان کی طرف سے زیادہ خراب کرنا، اہل سنت کا مذہب نہیں ہے اور اگرچہ ان کی بغاوت، حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ارشاد سے ثابت ہے۔ اِلاَّ اگرکوئی شخص باغی نہ کہے اور زبان کو روکے تو اولیٰ ہے۔ حضرت علی کا فرمانا اور ہے اور ہمارا کہنا اور ہے۔
معاویہ کے فضل میں کوئی حدیث خاص صحیح طور سے مروی نہیں ہے، جیسا شیخ محدث رحمۃ اللہ علیہ نے مدارج میں لکھا ہے اور مجدالدین فیروز آبادی نے سفر السعادۃ میں ([11]) مگر وہ حدیثیں جو بالعموم اصحاب کے حق میں مروی ہیں ، ان میں یہ بھی داخل ہیں ۔ اور انتقال کے وقت ان کا نادم ہونا اور آنحضرت ﷺ کے تبرکات کو کفن وغیرہ میں رکھنے کی وصیت کرنا اور موئے مبارک کا ان کی ناک میں رکھا جانا بھی منقول ہے۔رَضِیَ اللهُ عَنه وَعَنْ سَائِرِ الأَصْحَابِ[اللہ ان سے اور تمام اصحاب سے راضی ہوا-]
([2]) سلطان المشایخ خواجہ نظام الدین اولیا قدس سرہٗ سے پوچھا گیا کہ حضرت معاویہ کے بارے میں کیسا اعتقاد رکھنا چاہیے تو آپ نے فرمایا: او مسلمان بودو از صحابہ بود۔ معاویہ مسلمان تھے اور صحابہ میں سے تھے۔(فوائد،جلد: ۴، مجلس:۳۸، ص:۳۰۱)
([3]) بستان المحدثین، شاہ عبد العزیز محدث دہلوی(ص ۲۹۷)؛ ابن کثیر /البداية والنهاية (۱۱/۱۲۴)بہ الفاظ:أمَا يَكْفِي معاويةَ أن يَّذهب رأسا برأس حتى يروی له فضائل۔
([4]) صحيح البخاري، کتاب اللباس، باب الثياب البيض(۷/۱۴۹، ح: ۵۸۲۷)صحيح مسلم،کتاب الایمان، باب من مات لا يشرك بالله شيئا دخل الجنة (۱/۹۵، ح: ۹۴)
([7])مسند الشهاب (۲؍۲۷۵،ح:۱۳۴۶)جامع بيان العلم، باب ذكر الدليل من أقاويل...، (۲؍۹۲۵،ح:۱۷۶۰) عبد بن حميد/ المنتخب من المسند (۲۵۰،ح:۷۸۳) ابن عدي /الكامل(۲؍۷۸۵و۷۸۶)بيهقي /المدخل (۱؍۱۶۲،ح:۱۵۲) خطيب/ الكفاية (ص:۴۸)ابن بطة/الابانة الكبرى (۲؍۵۶۵،ح:۷۰۳) بالفاظ مختلفہ۔
([8]) سنن الترمذي ،ابواب الناقب،باب فيمن سب أصحاب النبي ﷺ(۶/۱۷۶، ح: ۳۸۶۲) مسند أحمد، از عبد اللہ بن مغفل (۳۴/۱۶۹، ح: ۲۰۵۴۹)
Leave your comment