ایک مرتبہ حضور داعی اسلام کی مجلس پر انوار میں حاضری کی سعادت حاصل ہوئی ، دوران گفتگو آپ نے ارشاد فرمایا: گنہگار كو ذلت آميز نگاہوں سے نهيں ديكھنا چاہيے بلکہ اس كے ساتھ رحم و كرم اور شفقت كے ساتھ پیش آناچاہیے اور اس كي اصلاح كي كوشش كركے رحمت الٰہی سے قريب كرنےكي کوشش كرني چاہيے اوراگر دل ميں اس كے ليے نفرت كے جذبات پيدا ہوں تو اپنے گناہوں كو ياد كرنا چاہيے،كيوں کہ اس نے اس شخص كو ياتو گناه كرتے ديكھا ہوگا يا پھر صرف اپنےگمان سے حكم لگا رہا ہوگا،اگرگمان ہے تو الله تعالىٰ كا ارشاد ہے: إِجْتَنِبُوْاكَثِيْرًا مِّنَ الظَّنِّ(حجرات)یعنی بد گمانی سے بچو۔ اور اگرگناه كرتے ہوئے ديکھا ہےتو پھر يہ غور كرے كہ وه عمل مُتّفِقہ طور پر گناه ہے يا اس ميں فقہا كا اختلاف ہے، اگر اختلاف ہوتو انکارنہ كرے۔فقہا ئے کرام فرماتے ہيں:لَايُنْكَرُالْمُخْتَلَفُ فِيْہ وَاِنَّمَايُنْكَرُالْمُجْمَعُ عَلَيْہ۔اور اگر وه عمل متفقہ طور پر گناه ہےپھربھی اس پر لعن طعن اور نفرت كے جذبات رکھنے كے بجائے اس كو ويسے ہی معذور سمجھےجيسے وه اپنے ہر گناه كے ليے عذر تلاش كرليتا ہے اور خود كو معذور سمجھتا ہے ۔
ميں نےحضرت شيخ عبد الحق محدث دہلوی كی كسی كتاب ميں لكھا ديكھا ہے كہ اگر چور كا بھی ہاتھ كاٹا جاے گا تو اپنے آپ كو افضل سمجھ كر نہيں بلكہ اس احساس كے ساتھ كہ اس كےايك گناه كو الله نے ظاہر فرما ديا اور ہمارے نہ جانے كتنے گناہوں كو اس نے چھپا ركھا ہے۔گنہگار كو اس ليے بھی حقير نهيں سمجھنا چاہيے كہ ہو سكتا ہے وه فوراً توبہ كركے مقربِ بارگاه ہو چكاہو ،جب كہ اس نے ابھی توبہ نہیں كی ۔يوں ہی گنہگار پر حد شرعی جاری ہوگئی ،مثلاً: چور كاہاتھ كاٹ ديا گيا تو وه پاك ہوگيا، اس كے گناہوں كی سزا دنيا ميں ہی مل گئی ،جب كہ اس كی سزا قيامت كے دن كے ليے ٹال دی گئی جو زياده درناك ہے۔قبيلہ جہينہ كي ايك خاتون نے الله كے رسول صلى الله عليہ وسلم كی خدمت ميں حاضر ہو كر زناكا اعتراف كيا،آپ نے اس كو حد شرع كے مطابق سَنگسار كيا اورپھر اس کی نماز جنازه اداکی۔ حضرت عمر كوحيرانی ہوئی اور بولے: يا رسول الله! آپ نے اس كو سنگسار كيا اورپھر جنازه بھی پڑھی، يہ كيا ماجرا ہے؟ ان کی مراد يہ تھی كہ يہ خاتون قابلِ نفرت اور ملامت ہے، پھر اس كے ليے دعائے مغفرت كا كيا مطلب؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمايا كہ اس نے ايسی توبہ كی ہےكہ اگر اسے 70؍ اہل مدينہ پر تقسيم كرديا جاے تو سب كو كافی ہو جائے۔در اصل ہر انسان كے خود اپنے گناه اتنے ہيں كہ اگر ان سے توبہ اور ان سےنجات كی فكر كرتا رہے تو غيركے اندر جھانكنے كی فرصت ہی نہ ملے اور وه سب سے زياده اپنے آپ كو حقير سمجھنے لگے۔
(خضرراہ ،اپریل ۲۰۱۴ء)
Leave your comment