سلطان العارفین حضرت مخدوم شاہ عارف صفی قدس سرہٗ کے۱۱۷؍ویں عرس کے موقع پر ایک مجلس میں حضور داعی اسلام مدظلہ العالی، کولکاتا کے محبین سے ہم کلام تھے،آپ نے دورانِ گفتگو عام لوگوں اور صوفیہ کے عمل میں فرق بیان کرتے ہوئے ارشادفرمایاکہ عام لوگ بھی عمل کرتے ہیں اور صوفیہ بھی عمل کرتے ہیں لیکن دونوں کے عمل میں بڑا فرق ہوتاہے:ایک بڑا فرق یہ ہوتا ہے کہ صوفیہ اپنے تمام اعمال میں اعلیٰ اوراحسن نیتوں والے ہوتے ہیں،کیوں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادہے:نِیَّۃُ الْمُؤمِنِ خَیْرٌمِّنْ عَمَلِہٖ۔(شعب الایمان،حدیث:۶۴۴۷) مومن کی نیت اس کے عمل سے اچھی ہوتی ہے۔
چنانچہ ان کا کوئی معمولی سے معمولی عمل بھی اعلیٰ اوراحسن نیتوں کی وجہ سے معمولی نہیں رہ جاتا،بلکہ قرب ربانی کا ذریعہ بن جاتاہے،جب کہ عام لوگوں کے وہی اعمال اعلی مقاصداور احسن نیتوں سے خالی بلکہ سفلی نیتوں پر مبنی ہوتے ہیں،اس لیے بظاہر ایک طرح کے اعمال ہونے کے باوجودوہ لوگ اجروثواب کے مستحق نہیں ہوتے،مثال کے طورپراپنے سامان کی حفاظت کی غرض سے گھر یا سوٹ کیس وغیرہ میں تالا لگانا ایک عام اور معمولی عمل ہے جسے سب لوگ انجام دیتے ہیں لیکن عام لوگ اس نیت سے تالا لگاتے ہیں کہ ان کا سامان ضائع نہ ہو،اوراُن کا دنیوی نقصان نہ ہو،اس کے علاوہ ان کی اور کوئی نیت نہیں ہوتی،جب کہ یہی کام صوفیہ کرتے ہیں تو اُن کی نیت یہ ہوتی ہے کہ تالالگادینے سے اللہ کا کوئی بندہ چوری جیسے بُرے عمل میں گرفتار ہونے سے بچ جائےگا اوراگر وہ تالا نہیں لگائیں گےتو کوئی بندہ ان کی لاپروائی کی وجہ سے چوری کے گناہ کا مرتکب ہوجائےگا،اور عذاب جہنم کا مستحق ہوجائےگا۔اسی لیےحضرت مولانا روم نے فرمایا ہے:
کار پاکاں را قیاس از خود مگیر
گرچہ باشد در نوشتن شیر شیر
اللہ تعالیٰ ہمیں صوفیہ جیسی اچھی نیتیں عطافرمائے۔(آمین)
خضرِ راہ ، اکتوبر ۲۰۱۶ء
(ترتیب : ضیاء الرحمن علیمی)
Leave your comment