۷؍رمضان ۱۴۳۵ھ بعد نماز عصر مرشدی حضور داعی اسلام ادام اللہ ظلہ علینا اپنے جاں نثاروں کے ہجوم میں جلوہ افروز تھے ،مختلف دینی گفتگو ہوتی رہی اسی درمیان عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کا ذکر آیا ،آپ نے مجلس میں بیٹھے ہوئے ایک صاحب کی طرف مخاطب ہو کر فرمایا کہ بتاؤ!کہ تمہاری بیوی فرعون کی بیوی کی طرح ہے یا حضرت لوط کی بیوی کی طرح؟ مزید فرمایا کہ اللہ نے مرد کو عورت پر قوام بنایا ہے ،اس کا مطلب یہ نہیں کہ عورت پر ظلم کیا جائے ،بلکہ اس کے ساتھ حسن سلوک اور تدبیر سے پیش آیا جائے اور اپنے منتظم ہونے کا ثبوت دیا جائے، حاکم مطلق نہ بن جائے ورنہ رشتہ ٹوٹ جائے گا۔کیونکہ عورت پسلی سے ہے اورپسلی ٹیڑھی ہوتی ہے زیادہ سیدھا اگر کیا گیا تو ٹوٹ جائے گی ۔ جو چیز ٹیڑھی ہوتو اس کو اس کی فطرت پر باقی رکھتے ہوئے اس سے کوئی اچھی چیز بنا ئی جائے ،بالکل سیدھا کرنے کے چکرمیں توڑا نہ جائے ،مرد کو چاہیے کہ عورت کو اس کی فطرت پر باقی رکھتے ہوئے اس کو پہلی یادوسری تاریخ کے چاندکی طرح حسین و جمیل بنا دے، اس کی کجی بھی باقی رہے اور حسن خلق ، وفاداری اور دین داری کی زینت سے مزین ہو کر چاند کی طرح حسین و جمیل ہو جائے ۔ جو مرد ایسا نہ کر سکے تو اس کو چاہیے کہ وہ عورت سے صبر کرے ،یعنی مجرد رہے جو سب سے آسان ہے اور اگر کسی کی بیوی حضرت لوط کی بیوی کی طرح ہو تو اس کو چاہیے کہ وہ عورت پر صبر کرے ،اس پر ظلم و زیادتی نہ کرے، کیونکہ اللہ نے فرمایا لَّعْنَةُ اللّٰهِ عَلَى الظّٰلِمِيْنَ ۔اوراگر ظلم کرتا ہے تو جہنم پر صبر کرے ،کیونکہ ظالموں کا ٹھکانہ جہنم ہے ۔
خضرِ راہ ، نومبر ۲۰۱۴ء
Leave your comment