ایک مرتبہ حضور داعی اسلام مدظلہ العالی کی بارگاہ میں حاضری کی سعادت حاصل ہوئی، آپ شیطانی وسوسوں پر گفتگو فرمارہے تھے، دورانِ کلام آپ کاارشاد ہوا: شیطان؛اولیاء اللہ کوبھی بہکانے کی کوشش کرتا ہے لیکن چوں کہ وہ آبِ رواں کی طرح ہوتے ہیں، جو خود بھی پاک ہوتا ہے اوردوسروں کو بھی پاک کرنے والا ہوتا ہے، اس لیے اس کے بہکانے کے باوجود اُن کاباطن پراگندہ نہیں ہوتا۔ اِن اولیاء اللہ کے لیے شیطان کی کوشش ایسی ہی ہوتی ہے جیسے کوئی بےوقوف نہر یا دریا میں پیشاب کرکے یہ سوچے کہ میں نے نہریادریاکو ناپاک کردیا۔جس طرح نہریادریامیں کسی شخص کے پیشاب کرنے سے اس کی طہارت میں کوئی فرق نہیں پڑتا،اسی طرح شیطان کے بہکانے سے مخلصین بندوں کا قلب پراگندہ نہیں ہوتا۔
اولیا؛آبِ رواں کی طرح ہیں، اس کا ایک معنی یہ ہے کہ جس طرح نجس پانی کو اگر آبِ رواں میں ڈال دیا جائے تو اُس میں ملنے کے بعداُس کے اندربھی پاک کرنے کی صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے ، اسی طرح وہ حضرات جن کا رنگ یعنی حسنِ عمل، مزہ یعنی حسنِ خلق اوربو یعنی حسنِ عقیدہ میں سے کوئی ایک بدل گیاہو، اگروہ اولیاءاللہ کی بافیض صحبت اختیار کر لیں تو اُن کی برکت سے اُن کے اندر پایا جانے والا عیب دور ہوجائے گا بلکہ آہستہ آہستہ وہ بھی دوسروںکو پاک کرنے والے ہو جائیں گے اوراُن سے دین سیکھنا اور اُن کی صحبت میں بیٹھنا درست ہو جائے گا۔
اولیا؛آبِ رواں کی طرح ہیں،اس کا دوسرا معنی یہ ہے کہ مشائخ جو صاحبِ ارشادہوتے ہیں،اگرچہ وہ ہمیشہ مخلوق کے درمیان رہتے ہیں، اُن سےنہ جانے کیسے کیسے گنہ گار ملتے ہیں،لیکن وہ سب کو گلے لگاتے ہیں اوراُن کو گناہوں سے پاک کرتے ہیں، ان سب کے باوجود اُن کا باطن پراگندہ نہیں ہوتا اور مخلوق کی قلبی نجاستوں کا اثر اُن پر نہیں ہوتا، جب کہ عام لوگ اگر ایسے لوگوں کے ساتھ رہیںتواُن کا قلب گندہ ہوجاتا ہے اورمولیٰ سے تعلق پر اس کا گہرااثرمرتب ہوتاہے،اسی لیے جس کے نفس کاتزکیہ نہ ہواہو،اس کے لیے عام لوگوں کے ساتھ میل جول ممنوع ہے اورجن کا تزکیہ ہوچکااورخود صاحبِ ارشادبھی ہوگئے ہوں، اُن کے لیے لوگوںکے درمیان رہناضروری ہے تاکہ وہ ان کا تزکیہ کرسکیں۔
خضرِراہ، اگست ۲۰۱۴ء
Leave your comment