۲۷؍اگست ۲۰۱۶ء بعد نمازِ مغرب حضرت داعی اسلام دام ظلہ کی ہفتہ واری عرفانی مجلس میں اساتذۂ جامعہ حاضر تھے۔مولانا غلام مصطفیٰ ازہری نے علامہ ابوبکرباذلی کی کتاب ’’التعرف لمذہب اہل التصوف‘‘کے حوالے سے بتایاکہ حضرت جنید بغدادی قدس سرہٗ اوردیگر اکابر صوفیہ رویت قلبی کے قائل ہیں،رویت عینی کے قائل نہیں ہیں۔
اس پر حضرت داعی اسلام نے فرمایاکہ سر کی آنکھوں سےرویت باری کا مسئلہ متقدمین کے درمیان مختلف فیہ رہا۔ بی بی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاسر کی آنکھوں سے رویت باری کے خلاف تھیں ،جب کہ سلف کی ایک بڑی جماعت اس کی قائل تھی۔سر کی آنکھوں سےرویت باری کے قائلین سلف اتنے عظیم ہیں کہ ان کی بات کو کسی طرح ردّ نہیں کیاجاسکتا، دوسری طرف بی بی عائشہ بھی ایک طویل زمانے تک صحبت رسالت میں رہیں،ایک بلند پایہ عالمہ اور عارفہ تھیں،ان کی بات کو بھی ردّ نہیں کیاجاسکتا۔کچھ لوگ ان کو بچی سمجھتے ہیں،ان کی سمجھ بھی خوب ہے۔اصل یہ ہے کہ اللہ رب العزت السمیع اور البصیر ہے۔وہ بالذات سننے والا اور دیکھنے والا ہے، اور صرف سننے اوردیکھنے والا ہی نہیں،بالذات سنانے والا اور دکھانے والابھی ہے۔وہ دِکھانے پر آجائے تو جس کو چاہے دِکھائے اور جیسے چاہے دِکھائے،وہ قلب کو چشم کردے اور چشم کو قلب کردے۔وہ چاہے تو کان سے بھی دِکھادے۔بلکہ وہ الظاہر ہے،سب کو دِکھاتاہے ،اب اگر دیکھنے والا اپنی آنکھ ہی بندکرلے تو یہ اس کی محرومی ہے۔ہاں! یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ وہ الباطن بھی ہے،جیساکہ وہ اپنی ذات میں خود کو دیکھنے والا ہے،کماحقہ دوسراکوئی اس کااحاطہ وادراک نہیں کر سکتا۔یہیں سے دونوں قسم کے اقوال کے بیچ تطبیق ہوجاتی ہے۔
خضرِراہ ، نومبر ۲۰۱۶ء
(ترتیب : ذیشان احمد مصباحی)
Leave your comment