حضور داعی اسلام دام ظلہ العالی کی خدمت میں علما کی ایک جماعت کے ساتھ حاضر تھا،گفتگو اس حوالے سے چل رہی تھی کہ عقیدہ وایمان کا ثمرہ عمل ہے اوراعمال کی پابندی کا ثمرہ احوال ہیں،یہی وجہ ہے کہ انسان کےعقائد میں پائےجانے والے حسن و قبح ،صحت وضعف اورفسادوانکار کا اثر اس کے اعمال میں نظر آتاہے اور عقیدے میں کمال کی نفی کی وجہ سےہی ایک انسان بداعمالیوں کا شکار ہوتا ہے، اس کی تائیداللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث سے ہوتی ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:لَایَسْرُقُ السَّارِقُ حِیْنَ یَسْرُقُ وَہُوَ مَؤْمِنٌ۔(بخاری،باب السارق حین یسرق،حدیث:۶۷۸۲) ترجمہ:چورایمان کی حالت میں چوری نہیں کرتا۔ اس لیے کبھی بھی عقیدے کو عمل سے جدا نہیں کیاجاسکتا،کیوں کہ علمائے کرام کا اختلاف اس میں تو ہے کہ ایمان عمل کا جزو ہے یا نہیں لیکن اس پر سب کا اتفاق ہے کہ عمل عقیدے پر مرتب ہونے والالازمی اثر ضرور ہے، لہٰذا عمل میں کوتاہی ہمارے عقیدے میں نقص کی علامت ہے۔ مزیدگفتگو کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ عقیدے میں صحت وضعف کے اعتبارسےلوگوں کے درج ذیل طبقات ہیں:
۱۔سلیم العقیدہ :یہ وہ لوگ ہیں جن کو حق تعالیٰ نے مخلَصین قراردیا۔ارشادباری ہے: اِنَّہٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِیْنَ۲۴(یوسف) یعنی یہ ہمارے مخلَص بندے ہیں۔ اس گروہ میں انبیا ومرسلین اور اولیائے واصلین کی جماعت ہے،ایسے لوگوں کے قلوب کو سلیم کی صفت سے متصف کیا گیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:اِلَّا مَنْ اَتَی اللہُ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍ۸۹(شعرا)ایسے لوگ اپنی نفسانی خواہشات سے فانی اور حق کی مرضیات سے باقی ہوتے ہیں۔
۲۔صحیح العقیدہ :یہ وہ لوگ ہیں جن کوقرآن کریم نے مخلصین کہا ہے ،یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جواخلاص کے ساتھ دین پر عمل میں کوشاں رہتےہیں ،یہی لوگ بعد میں مخلص ہوکراللہ کے منتخب بندوں میں شامل ہوجاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشادہے: وَمَااُمِرُوْا اِلَّا لِیَعْبُدُوْا اللہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ۵(بینہ) ترجمہ:ان کو تو یہی حکم دیاگیاہے کہ دین کو اللہ کے لیے خالص کرکے عبادت کریں۔
۳۔ضعیف العقیدہ :یہ مذنبین کا گروہ ہے جس کو قرآن کریم ظَالِمٌ لِنَفْسِہٖ۳۲(فاطر)اپنی جان پر ظلم کرنے والا کہا ہے،یہ لوگ ضعف عقیدہ کی وجہ سے بدعملی کا شکاراورگناہوں میں ڈوبے ہوئےہیں۔
۴۔سقیم العقیدہ : یہ مبتدعین کا گروہ ہے،یہ اہل سنت سے خارج اورگمرہی کے شکارہیں،ان کی جانب قرآن کریم میں یوں اشارہ فرمایاگیاہے: فِی قُلُوْبِہِمْ مَرَضٌ۱۰(بقرہ) ترجمہ:اُن کے دلوں میں بیماری ہے۔
۵۔عقیم العقیدہ : یہ منکرین کا گروہ ہے،اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یوں ارشادفرمایاہے: لَہُمْ قُلُوْبٌ مُنْکِرَۃٌ وَہُمْ مُسْتَکْبِرُوْنَ۲۲(نحل) ترجمہ:ان کے دل انکارکرنے والے ہیں اور وہ اَکڑنے والے ہیں۔
سلیم العقیدہ اور ضعیف العقیدہ کے درمیان صحیح العقیدہ برزخ ہے۔وہ اس طرح کہ ضعیف العقیدہ کی طرف نسبت کرتے ہوئے وہ سلیم العقیدہ سے قریب ہے اور سلیم العقیدہ کی طرف نسبت کرتے ہوئے وہ ضعیف العقیدہ سے قریب ہے،یوں ہی صحیح العقیدہ اور سقیم العقیدہ کے درمیان ضعیف العقیدہ برزخ ہے ،وہ اس طرح کہ سقیم العقیدہ کی طرف نسبت کرتے ہوئے وہ صحیح العقیدہ سے قریب ہے اورصحیح العقیدہ کی طرف نسبت کرتے ہوئے وہ سقیم العقیدہ سے قریب ہے،کیوں کہ اس کے اندر ضعف ہے۔یوں ہی ضعیف العقیدہ اور عقیم العقیدہ کے درمیان سقیم العقیدہ برزخ ہے،وہ اس طرح کہ عقیم العقیدہ کی طرف نسبت کرتے ہوئےوہ ضعیف العقیدہ سے قریب ہے ،کیوں کہ اس کے عقیدے میں اگرچہ سقم ہے لیکن اس کا علاج ہوسکتا ہے، اور ضعیف العقیدہ کی طرف نسبت کرتے ہوئے وہ عقیم العقیدہ سے قریب ہے،کیوں کہ اس کی بیماری بہت ہی مہلک ہے۔
امراض دوطرح کے ہوتے ہیں:شبہے کے امراض عقیدے میں لگتے ہیں اور شہوت کے امراض عمل میں لگتے ہیں اور ان دونوں امراض کے لیے صادقین کی صحبت اکسیر ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: یٰاَیُّہَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوااتَّقُوا اللہَ وَکُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ۱۱۹(توبہ) ترجمہ:اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو ،اورسچوں کے ساتھ ہوجاؤ۔ اللہ رب العزت ہم کو سلیم العقیدہ اور صحیح العقیدہ بنائے اور اعتقادی کمزوریوں سےمحفوظ رکھے اور صادقین کی صحبت عطافرمائے۔(آمین)
Leave your comment