انیسویں اور بیسویں صدی میں دنیا میں عظیم ترین سیاسی و سماجی اور مذہبی و ثقافتی انقلابات ظہور پذیر ہوئے۔ انیسویں صدی کے اختتام تک چندممالک نے دنیا کو اپنے اپنے طور پر بانٹ لیا۔اسی صدی میں بعض مذہبی و مسلکی اور فکری و نظریاتی مباحث بھی پیدا ہوئے، جن میں شیخ محمد بن عبد الوہاب اورشاہ اسماعیل دہلوی اور ان کے متاثرین و مخالفین کے مختلف افکار و نظریات خاصے اہم ہیں۔ بیسویں صدی کے آغاز کے ساتھ سامراجیت کا خاتمہ اور شاہ عبد العزیز بن سعود کی مضبوط سلطنت کے قیام کے ساتھ دنیا کے سیاسی منظر نامے اور عالم اسلام کے مسلکی اور فکری منظر نامے میں زبردست انہدام و تشکیل کے مظاہر دیکھنے کو ملے ۔
جب اکیسویں صدی کا سورج طلوع ہوا اس وقت ایک طرف سیاسی وثقافتی سطح پر امریکا کی بالادستی تسلیم کی جاچکی تھی تودوسری طرف جدید ٹکنالوجی کی دنیا میں حیرت انگیز ایجادات و انکشافات نے اسلامی مفکرین و فقہاکو ایسی نئی دنیا سے اورنئی صورت حال سے آشنا کیا جس سے وہ پہلے مانوس نہ تھے۔تیسری طرف عالم اسلام کا جائز ہ لیجیے تو یہاں ایسی افراتفری ،عدم استحکام ، شیعہ سنی ،صوفی و ہابی اور تقلیدی وغیر تقلیدی محاربات قائم ہیں جن کے خاتمے کے لیے دعا ہی کی جا سکتی ہے ۔
ہمارا موضوع سخن متقاضی ہے کہ ہماری گفتگو اجتہاد و تقلید کے حوالے سے جوبے اعتدالی ہے ، صرف اسی پر مرکوز ہو ؛ کیوں کہ یہ نکتہ ان تمام مباحث میں کلیدی اہمیت کا حا مل ہے ۔اجتہاد و تقلید کے حوالے سے امت مسلمہ کے افکار کو موجودہ حالات میں درج ذیل خانوں میں بانٹا جاسکتاہے:
- احادیث کی روایتوں میں اس قدر تضادات اور ان کی تصحیح وتضعیف میں اس قدر مختلف آرا ہیں کہ جن کے پیش نظر آج احادیث سے استفادہ ممکن نہیں رہا ۔ نئے ماحول میں صرف کتاب اللہ سے ہی روشنی لی جاسکتی ہے۔
- حالات اتنے نئے در پیش ہیں کہ ان کے لیے موجودہ فقہی ذخیرے سے کسی حل کی امید نہیں رہی۔ اب اس پورے ذخیرے کو دریا برد کر دینا چاہیے؛نئے حالات میں رہنمائی کے لیے براہ ر است کتاب وسنت سے رجوع کرنا چاہیے۔
- تیسرا طبقہ وہ ہے جو ائمہ کبار کی تقلید کو شرک فی الدین اور شرک فی الرسالۃ ٹھہراتاہے اورائمہ صغار کی تقلید کوواجب بلکہ فرض قطعی سمجھتاہے ۔
- ایک طبقہ و ہ ہے جو اپنے ائمہ کی حرف حرف تقلید پر اس قدر مصر ہے کہ اس کے خلاف ضرورت و حاجت اور مقاصد شریعت جیسی اصولی باتوں کو بھی بےدینی اور الحادتصورکرتاہے۔اس کے لیے مسئلہ صرف معروف ائمہ کی آرا پر اصرار نہیں ہے بلکہ متاخرین درمتاخرین اپنے مقبول و محبوب علما کی فقہی آرا پر بھی صاد کرنا اس کے ایمان کا حصہ ہے۔
ایسے ماحول میں فقہی و نظریاتی سطح پر امت مسلمہ کے اندراعتدال کی دعوت دینا، جو اس امت کا خاص وصف ہے، کس قدر مشکل ہے، اس کا اندازہ کیا جا سکتاہے ۔ فقہی سطح کے ان تمام طبقات میں وہ طبقات سب سے زیادہ اس امت کی سلامتی کے دشمن ہیں جو اپنی فقہی رائے کو وحی کا درجہ دیتے ہیں۔ ایسےلوگ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ ہمارے ایمان کا حصہ نص ہے تعبیر نص نہیں۔ نص کاانکار توکفر ہے مگر کسی فقیہ و مجتہد کی تعبیرو تشریح ہمارے ایمان کا حصہ نہیں ہے، الا یہ کہ وہ تعبیر اجماعی ہو، یعنی نصوص کے وہ معانی و تعبیرات جن پر ابتدائی صدیوں میں امت کا اجماع ہو گیا تھا وہ تو ہمارےلیے ایمان کا حصہ ہیں مگر ابتدائی اوراواخر صدیوں کی وہ تعبیرات جن پر امت کا اجماع نہیں ہوا وہ ہر گز ہرگز ہمارے ایمان کا حصہ نہیں ہیں۔
واضح رہےکہ اجماع چند سروں یااکثر سروں کے اتفاق کا نام نہیں ہے، بلکہ پوری امت کے اتفاق کا نام اجماع ہے۔ ایسے میں ہمارےوہ اصحاب کس قدر قابل رحم ہیں اور امت کو کس بے دردی سے مشق ستم بنائے ہوئے ہیں جو ائمۂ اکابر کی رائے کو تسلیم کرنے کو شرک فی النبوۃ سمجھتے ہیں اور اپنی رائےسے کسی کے اختلاف کو گردن زدنی جرم قرار دیتے ہیں۔ آج امت مسلمہ نظریاتی سرحدوں سے آگے بڑھ کر اگر عملی طور پر باہمی جنگ و جدال اور خون ریزی میں ملوث ہے تو اس کی وجہ کہیں نہ کہیں یہی فکری بے اعتدالی ہے۔
میرے نزدیک امت مسلمہ کے موجود ہ فقہی وعلمی ذخیرے کو آج یکسر مسترد کر نا، کَل دین کی سرحدوں کو کلی طور پر پائمال کر نے کا پیش خیمہ ہے ۔ تمام فقہا اور علما کی کاوشوں کو بے علمی اور بد دیانتی پر محمول کرنا خود کس قدر بے علمی و بد دیانتی ہے، اس پر ہمیں ٹھنڈے دل سے سوچنا چاہیے۔
اس حوالے سے ایک آواز اجتہاد مطلق کے دروازے کے بند ہونے اور کھلنے کے تعلق سے بھی مسلسل اٹھتی رہی ہے ۔میرے نزدیک اس طرح کی ساری بحثیں بے نتیجہ ہیں۔اولاً اس لیے کہ دین کی مجموعی تفہیم کے لیے ہمارے پیش رؤوں کی کوششیں اور اجتہادات کافی اور ہمہ گیر ہیں۔ ہمیں مجموعی طور پر دین کی تفہیم جدید کی حاجت نہیں ہے،بلکہ بعض فروعات و مسائل کی تحقیق مطلوب ہے، جو اپنے پیش رؤوں کے اجتہادات اور اصولوں کی روشنی میں یا جزئی اجتہاد کے ذریعے بھی ہو سکتی ہے ۔
ثانیاً اس لیے بھی کہ موجودہ سنی فقہی مسالک کاجائزہ لیجیے تو مسالک اربعہ کے علاوہ ایک پانچواں مسلک بھی ہے جو غیر تقلیدی مسلک کہلاتاہے ۔اس سے قطع نظر کہ کیا واقعی وہ غیرتقلیدی مسلک ہے یا وہ بھی چند علما کی آرا پر مبنی ہے؟ اور کیا اس طبقے کا ہر فرد اجتہاد بلکہ فقہ دین کے ضروری شعور سے بھی آشنا ہوتاہے ؟یہ بات اپنی جگہ طے شدہ ہے کہ ان پانچوں مکاتب فقہ کے بعض علما اجتہاد مطلق کی مسند پر براجمان ہوئے بغیر بھی اپنے اپنے طور پر جدید مسائل و مباحث کاحل پیش کر رہے ہیں،اس لیے میرے نزدیک جدید مسائل و مباحث کی تحقیق و تفہیم پر براہ راست اجتہاد مطلق کے دروازے کے بند ہونے یا کھلنے کا کوئی اثر نہیں پڑتا۔
یہاں اس بات کی وضاحت اور تاکید ضروری ہے کہ گذشتہ ۱۴؍سوسالہ فقہی ذخیرہ نہ یہ کہ دنیاکا عظیم ترین اور جامع ترین قانونی ذخیرہ ہے بلکہ متعدد جہتوں سے ممتا ز،نمایاں اور بےمثال بھی ہے ۔ اس پورے ذخیرے سے دست برداری کی بات میرے نزدیک نہ صرف بے بصیرتی و بے تدبیری ہے بلکہ علم دشمنی اور بالواسطہ دین دشمنی بھی ہے ۔ اس طرح کی سوچ امت کے ارتقا کے بجائے زوال بلکہ خاتمے کی پر فریب دعوت ہے ، جس کی تہہ بہ تہہ فریب کاریوں کوسمجھنے کی ضروت ہے۔
جو لوگ تقلیدی طبقات پر شرک فی النبوۃ کی تہمت رکھتےہیں،وہ خود اس بات کے متمنی ہوتے ہیں کہ جماہیر مسلمین ان کی آرا پر صاد کریں،گویا وہ ایک طرف شرک فی النبوۃ کے مخالف ہیں تو دوسری طرف خود ہی اس کے داعی بھی ہیں، میرے نزیک عامۃ المسلمین،بلکہ عامۃ العلماء کو تقلید کی بنیاد پر شرک فی النبوۃ کا مجرم قرار دینا ، یہ ایسی سخت دفعہ ہے ، جس کے نفاذ کے بعد عالم اسلام میں بہ مشکل تمام دو چار مسلمان نکل سکیں گے ۔اس طرح کے خیالات سخت متشددانہ ہیں، جن سے امت کے لیے کسی فکری ارتقا اور عملی فلاح کی امید نہیں کی جاسکتی ۔یہی وہ متشدد افکار ہیں جو فکری وفقہی اختلاف کو عملی جنگ و قتال تک پہنچا رہے ہیں۔فہل من بصیر ؟
وہ طبقہ جومعروف ائمہ بلکہ متاخرین در متاخرین مقبول و محبوب علما کی آرا پر حرف حرف صاد کرنا ایمان کا حصہ سمجھتا ہے ،وہ بھی سخط غلط فہمیوں اور محبت کی تاریک وادیوں میں گم ہے۔یہ فقہی نقطۂ نظر خالص غیر فقہی ہے ۔فقہ کی بنیاد کتاب و سنت کی ظاہرپرستی کے برخلاف ان میں اجتہاد کے اصول پر استوار ہے اوریہ طبقہ اپنی سخت گیری کی وجہ سے کتاب و سنت میں تو اجتہاد کا قائل ہے مگر فقہی آرا میں غور و خوض اور زمانی تبدیلیوں کے سبب نظرثانی کے خلاف ہوکر گویا فقہی آرامیں ظاہر پرست ہے۔یہ عجیب بوالعجبی ہے کہ کوئی اللہ و رسول کے کلام کوتوقابل تاویل سمجھے لیکن امتی کے قول کو حرف آخر اور ناقابل تاویل جانے۔
ہماری رائے میں کتاب و سنت اور اجماع امت کے ساتھ ائمۂ اکابر کے اصول و تفریعات سے بھی ہمیں فقہی رہ نمائی لینی چاہیے۔مذکورہ بالا پانچوں مکاتب فقہ میں سے جو جس سے وابستہ ہو ، مجھے کسی پر کوئی اعتراض کا حق نہیں ہے، عرض صرف یہ کرنا ہے کہ فقہیات میں غور و خوض کرنا اگر ہم اپنا حق سمجھتے ہیں تو دوسروں کو بھی اس کا حق دیں، فروعی اختلافات کو توسع پر مبنی سمجھیں اور دلائل کا جواب دلائل سے دیں۔اسی طرح یہ بات بھی بہت اہم ہے کہ موجودہ حالات میں فقہیات میں غور وخوض کے لیے موضوعات کیا ہیں؟ جن مباحث کی تحقیق و تفہیم میں صدیاں بیت چکی ہیں، امت کوپھرانہی میں الجھائے رکھنا امت کو تباہ کرنا ہے۔ آمین بالجہر، رفع یدین،رکعات تراویح،یہ وہ مسائل ہیں کہ ان پر اب نیا کچھ نہیں کہاجا سکتا، ہمیں اس بات کو بھی سمجھنا چاہیے کہ ان مختلف طریقوں میں سے کوئی طریقہ حرام نہیں ہے۔ہمیں اس بات کو بھی سمجھنا چاہیے کہ یہ احکام اسلام کے مطلوب حقیقی نہیں ہیں،اس لیے امت کو ان مباحث میں الجھانےکے بجائے کسی ایک طریقے پر عمل کے ساتھ دوسرے طریقوں کو برداشت کرنے کا جو اصولی اور علمی رویہ ہے اس پر آنے کی ضرورت ہے۔
نئے حالات میں جو نئے مسائل پیدا ہوئے ہیں،و ہ ہماری فقہی توجہ کے مستحق ہیں۔نئے مسائل میں غور وخوض کے لیے ضروری ہے کہ ہم پہلے اصول طے کریں،یعنی جیسا کہ ہمارے ائمہ نے کہا، کہ پہلے قرآن میں دیکھیں ،اگر وضاحت سے مسئلہ حل نہ ہو تو سنت کی طرف دیکھیں،وضاحت نہ ہوتو اجماع کی طرف دیکھیں، وضاحت نہ ہو تو ہم جس فقہی مکتب سے وابستہ ہوں ان کے اکابر ائمہ کی طرف دیکھیں، مسئلہ اب بھی حل طلب رہ جائے تو دوسرے ائمہ کی ہدایات سے روشنی لیں اور اگر بالفرض پھربھی مسئلہ حل طلب رہ جائے تو از خود غورو خوض کرکےاخلاص کے ساتھ منشا شریعت تک پہنچنے کی مومنانہ کوشش کریں ۔اتنا سب لکھ دینے کے بعد اب یہ کہنے کی حاجت نہیں رہ جاتی کہ جدید فقہی مباحث پر وہی غور کرے جس کی نظر قرآن پر ہو ،سنت پرہو، اجماع پر ہو، پورے فقہی ذخیرے پرہو اور خوب ہو۔
فقہی احکام کا سب سے اہم باب کتا ب البیع والتجارۃ ہے۔ آج جو نئے فقہا ظہور پذیر ہو رہے ہیں ان کاپہلا فرض ہے کہ کتاب و سنت اورفقہی ذخیرے پر گہری نظر کے ساتھ جدید تجارتی نظام کو گہرائی کے ساتھ سمجھیں۔
اس کے بعدہم کتاب السیر ،کتاب الحدود والتعزیراورکتاب الجہاد کی باتیں کریں تو ان میں سے بیشتر احکام دار الاسلام اور دارالحرب سے متعلق ہیں ۔گذشتہ دو تین صدیوں کے سیاسی انقلابات کے بعد موجودہ جمہوری ماحول میں اب دارالاسلام اور دارالحرب کی تعبیر جدید کی اشد ضرورت ہے،بلکہ اس کے ساتھ دارالجمہوریہ کی فقہی تعریف و تشریح کی بھی ضرورت ہے، اس کے بعد ہی بہت سے سیاسی، سماجی، ثقافتی اور اقتصادی احکام کے بارے میں صحیح ومعتدل رائے بن سکے گی اور موجودہ افراتفری کے ماحول میں مسلمانوں کے لیے علمی و عملی رہنمائی کی راہ نکل سکےگی۔
لیکن ان سب سے پہلے اور سب سے اہم یہ ہے کہ امت مسلمہ کو ایک دوسرے سےیہ فقہی جزئیات نہیں جوڑ تیں، امت کو کلمۂ توحیدنے ایک کر رکھاہے ،امت کو کتاب وسنت پرغیر مشروط ایمان نے ایک بنارکھا ہے ،امت ایمان باللہ ،ایمان بالرسول اور ایمان بالآخرۃ کے مسلمہ اصولوں پر متفق ہے۔اس لیے فقہی اختلافات و مباحث سے متاثر ہو کر اگر ہمارایہ مضبوط رشتہ ٹوٹتا ہے تو امت کے لیے یہ قیامت کا الارم ہے ۔
اسی طرح فقہی اجتہاد و تقلید کے حوالے سے یہ بات یادرکھنے کی ہےکہ مطاع مطلق صرف اللہ ورسول کی ذات ہے، اس لیے کسی فقیہ یا کسی مفکر کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اپنی رائے کو کتاب وسنت کا درجہ دے اور اس سے انحراف کو کتاب وسنت سے انحراف کانام رکھے۔ یہ متشددانہ سوچ امت کو تباہ کر رہی ہے جس سے گلو خلاصی بہت زیادہ ضروری ہے ۔
آخر میں بطور خلاصہ عرض کروں گا کہ امت مسلمہ کے موجودہ فکری بحران پر غورکرنے سے پہلی نظر دوفکری انتہاؤں پر جاکر رک جاتی ہے ۔علامہ اقبال نے قصۂ قدیم و جدید کو دلیل کم نظری بتایا تھا،یہ کم نظری اتنی بڑھی کہ اس نے امت کو دو ایسے کناروں پر پہنچا دیا جن کے بیچ آگ کا دریا موج زن ہے۔اگر ایک طرف ائمۂ مجتہدین اور علماے امت کے تقدس نے افراد امت کواندھا، بہرااور گونگا بنا دیا ہے تو دوسری طرف بعض سر پھرے جوش اجتہاد میں اس قدر آگے بڑھ گئے ہیں کہ انہیں اجتہاد مطلق کےلیے فقط اتنی صلاحیت مطلوب ہے کہ وہ انگریز ی میں قرآن پڑھ سکیں اور بس ! ان کےنزدیک امت کے چودہ سوسالہ علمی لٹریچر نہ صرف یہ کہ موجودہ مسائل کی تفہیم میں غیر معاون ہے بلکہ یہ دین میں اضافات کے مترادف ہے اور اس لائق ہےکہ اسے کوڑے دان میں ڈال دیا جائے۔ العیاذ باللہ !
امت مسلمہ کی ان دونوں فکری انتہاؤں کے بیچ ’’دین‘‘ شعلوں میں جل رہا ہے۔ضرورت ہے اعتدال کی ،ضرورت ہے وسطیت کی اور ضرورت ہے ایسی روایت پسندی کی جوجدیدیت سے بے خبر نہ ہو اور ضرورت ہے ایسی نئی روشنی کی جو ہمیں ماضی کا باغی نہ بنائے بلکہ ماضی کی شاہ راہ سے جوڑ کر رکھے، ورنہ بہت ممکن ہے کہ یہ روشنی ہمیں منزل سے دور کر دے ،یہ اجتہاد تبدیلی دین کا عنوان بن جائے اور پھر یہ پچھتاوا کرنا پڑے۔