سکے کا دوسرا رخ یہ ہے کہ شدت پسندوں کی اپنی تمام تر کوششوں اور سازشوں کے باوجود خود ہندو دھرم ترک کرنے کا سلسلہ سب سے زیادہ ہے۔ٹائمس آف انڈیا کی ۲۹؍ ستمبر ۲۰۱۸ءکی ایک رپورٹ کو اگر درست تسلیم کیا جائے تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف ریاست گجرات کے اندر2013ء سے 2018ء کے بیچ مذہبی تبدیلی کی جو درخواستیں آئی ہیں ان میں 93.5 فی صد درخواستیں ہندو مت کو ترک کرنے سے متعلق ہیں۔ اس دوران تبدیلی مذہب کی درخواست دینے والوں کی تعداد 1,766 تھی، جن میں 1,652 ہندو ، 71 مسلمان، 42 مسیحی اور ایک سکھ تھا۔فیصد تناسب میں اسے دیکھیں تو تبدیلی مذہب کے خواہش مند ہندو 93.5%، مسلمان 4% اورمسیحی 2.5% ہیں۔
یہ رپورٹ بشرطِ صداقت یہ بتاتی ہے کہ تبدیلی مذہب سے جو پریشانی ہے، مسلمانوں سے زیادہ خود ہندؤں کو اس کا سامنا ہے۔ دوسری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ اس کی وجہ سے جو قومیں تشدد پر آمادہ ہیں دراصل وہ ایک قسم کی جھلاہٹ میں مبتلا ہیں۔اس کی توثیق اس سے بھی ہوتی ہے کہ مذکورہ بالا رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے وی ایچ پی کے سابق صدر اور انتر راشٹریہ ہندو پریشد کے بانی پروین توگڑیا نےیہ بیان دیا کہ ہندو مذہب ترک کر کے دوسرے مذاہب اختیار کرنے والوں کی تعداد ان اعداد و شمار سے کہیں زیادہ ہے، مگر صحیح گنتی دستیاب نہیں ہے کیوں کہ سرکاری فوائد حسب سابق جاری رکھوانے کے لیے لوگ اپنے مذہبی موقف کا کھل کر اعتراف نہیں کر رہے ہیں ۔(۱) وزیر اعلی اترپردیش کے اس بیان کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہیے جو فروری ۲۰۱۵ء میں سامنے آیا تھا، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ جب تک تبدیلی مذہب کے خلاف قانون نہیں بنایا جاتا گھر واپسی کی مہم جاری رہے گی۔( )
مذکورہ بالا رپورٹ اور دیگر زمینی حقائق سے یہ بات بھی سامنےآتی ہے کہ عہد حاضر میں آزادی مذہب کا جو عالم گیر ظاہرہ سامنے آیا ہے، اسے چند شدت پسند طبقات دنیا کے کسی حصے میں روک نہیں سکتے۔ بہتری اسی میں ہے کہ لوگ اپنے اس مذہبی جذبے پر قابو پالیں جو انہیں مذہبی آزادی کے خلاف برانگیختہ کرتا ہے، بصورت دیگر آزادی مذہب کا جدید عصری ظاہرہ سیلاب کی طرح جب امنڈے گا تو اس کا زیادہ نقصان انہی لوگوں کو اٹھانا پڑےگا جو اس طوفان کو روکنے کے درپے ہیں۔
جہاں تک ہم مسلمانوں کی بات ہے تو ہم مذکورہ بالا اسباب سے بچتے ہوئے اور تجاویز پر عمل کر کے بڑی حد تک اس طوفان سے اپنی نسلوں کے ایمان وعمل کی حفاظت کا بند وبست کرسکتے ہیں۔ باقی تمام امور کا سرا حق تعالیٰ کے ہاتھوں میں مربوط ہے۔ وھو الکافی وعلیہ التکلان!